اتوار، 19 اپریل، 2015

کنارہ

سایہ جو لہک رہا ھے، اپنا ہی ھے
دیا جو دہک رہا ھے، اپنا ہی ھے

آ آ کہ بہلا رہی ھے لوری تری
یہ آہٹ، حقیقت، سپنا بھی ھے

در بدر بھٹک رہی ہیں نگاہیں
پیر جم گئے در پر، چلنا بھی ھے

کالی ہواؤں سے پوچھتے ہیں  پتا
ہاں وہ انجان بےنام، اپنا بھی ھے

لے آئی کیوں وہ کنارے پر مجھے
جلوے اس شوخ کے الگ سے بنُے ہوئے
اور برسی چاندنی، اندیرے گھنے ہوئے

پرسکوں لہروں کی ناآگاہی
دیکھ کر سوچا وہ الجھا راہی
ترے وجود پر غلاف ھے
تری حقیقت بر خلاف ھے
بس ذرا بڑا، تیرا گڑھا ھے
راہی کنارے پر کھڑا سوچ رہا ھے
بےبسی اور بےبس، یہاں ملتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں