اتوار، 31 اگست، 2014

سہارے


الجھن ایک،  اوجھل ھے
سینہ سارا،  بوجھل ھے

اک اَنا ھے جس کی رضا نہیں
پر من کو تو منع نہیں
لکھ بھیجو کی سامان نہیں
جس کے سہارے جی سکیں

گھر کی یاد


ہوش کے آخری دہانے
آرزو کے نت نئے بہانے
ہر شب، گھر کا منظر
اور صبحدم پھر ویرانے

یہ معمول سا بن گیا ھے
یہ سراب سے خواب
یہ خواب سی خواہشیں
دھوپ سے آنکھ کھولنے کو ھے
من گھڑت منظر مٹنے کو ھے