اتوار، 28 دسمبر، 2014

اڑان

اے کاش، آکاش میں چلیں ہم
مدھم مدھم چارقدم، بھلائے سب غم
نرم نرم جسم  سے، ٹکرائے ابر نم
پرندوں سے دوڑیں، لگائے دم خم

اے کاش، آکاش میں چلیں ہم
 ---
روشنیاں چبھتی ہیں آنکھوں میں
بہت بوجھل ہے شور کانوں میں
دھڑکتی ہیں جیسے سر کی سبھی رگیں
دم گھٹتا ہے، سانس رکتا ہے،میرا  اس زمین پر


طبیب

دور،،، فسوں ساز، اداس سی، بجتی شہنائی ھے
کہاں؟،، رخصار دل فگار کی، غائب رعنائی ھے

ڈوب رہا ہے دل،
رات اب آئی ھے
تری خاطر غم طراز
دیکھ شاہراہ سجائی ھے

کون سی سواری پر ھے
کہاں تک تو آئی ھے
جینا دشوار ہوا،
نظر دھندلائی ھے

مدھ بھری آنکھ، مشہور مسیحائی ھے
سن کر ترا نام،دیکھ خلقت اٹھ آئی ھے
خراب حال میں، خراماں چال تو
مری قسمت میں کیا، لکھی رسوائی ھے

اتنی مشکل بھی نہیں یہ راہ گزر
جتنی ہرجائی، تو  نے بتائی ھے

'چھیتی دوڑ     وے طبیبا  ،نی تے میں مر گی یاں'

پاکستانی

سنّی نہ شیعہ نہ وہابی
قصائی نہ باورچی نہ کبابی

سامع نہ سوالی نہ جوابی
لٌوٹا نہ کٹورا نہ پیالی

رومی نہ مجنو نہ غزالی
عاشق نہ حقیقی نہ مجازی

حرام نہ جائز نہ حلالی
شباب نہ حْسن نہ بازاری

مہّذب نہ مسلم نہ آدم
کھلاڑی نہ پیسہ نہ جواری

بن گیا گالی
پہچان تمھاری

سدا جیو
اے سبز ہلالی !

پاکستان زندہ باد

ہفتہ، 20 دسمبر، 2014

دھراؤ


گھورتے ہوئے برتنوں کا جاذب عکس
پس منظر میں سائے کا یک ڈھنگ رقص

کافوری دیوار کا پھیکا سا رنگ
نلکے کے مو پہ ہلکا سا زنگ

بیکار آوازوں کا بیکار ملاپ
ریاکاروں کی بیزار، اداکاری کا ملاپ

پاؤں میں پل پل پھڑکتی رگیں
پیالوں میں چمکتی تری کی شمعیں

ہر شے کہ رہی ہے بھاگ جاو کہیں
بےچارگی سے فراری کا رستہ نہیں

"اب ہوش میں رہوں گی" یہ سوچتی ہے
مگر
اصوات کی تکراری
منظر کی بیزاری

اسے پھر سے لے ڈوبتی ہے

پیر، 24 نومبر، 2014

Airport

سوئے ہوئے
کچھ کھوئے ہوئے
سفر کی تھکن اور منزل کی لگن لئے
خوابوں کی دنیا میں مگن
سب بےہنگم پڑے ہوئے ہیں

جمعرات، 6 نومبر، 2014

Passenger

کھڑی ترچھی
نظر نیچی
بار بار بھوں پر انگلیاں پھیرتی
کندھے پر براؤن بیگ
بازو پر لٹکائے چھتری

کلپ سے بال سمیٹے
چھوٹا سا ٹیٹو،
بائیں کان کے پیچھے

'check pattern trousers'
 اور موزے رنگین
چہرہ زرد، ماتھا پچکائے، غمگین

بنے مجسمہِ اداسی،
کہیں جارہی تھی۔۔۔

بدھ، 15 اکتوبر، 2014

چنگاریاں

آ،
کہ تڑپ رہی ہیں مجھ میں
پراصرار چنگاریاں
ہولے۔۔۔ ہولے بول،
کی سن رہی ہیں میری بےتابیاں
سنبھل ۔۔۔ اے دوست سنبھل !!
کہ مٹ چکی ہیں پہلے بھی شناسائیاں

اب صحرا اور گلشن کرینگے سرگوشیاں
کہ پَر طول رہی ہیں میری شوخیاں
پرواز کرے گی آواز مری
دستک دیگی سوز و گداز مری
اور جاگ اٹھیںگے  سب سوزوساز
قفس میں بلبل کی انگڑائیاں
ظلم  و جبر سے بےنیاز

اور تم کہتے ہو، 'تھام لوں زبان
کہ ہو رہی ہیں تجھ سے گستاخیاں
یہ چنگاری ہے، اڑ جائیگی'
میں کہتا ہوں، ساری دنیا جل جائیگی
اور بول اٹھیگیں خاموشیاں

جمعرات، 2 اکتوبر، 2014

آتش فشاں

اک آتش فشاں پھٹنے کو ھے
یہ شہر، یہاں سے دور بھی
نفرت کا دھواں پھیلے گا
اکڑی گردن، ترچھی نگاہیں
سہمے دل، بلند آوازوں سے
تعصب کے، وفاداری کے
بیہودہ سوال پوچھیں گے
اور امتیاز کے ترازو
عجلت میں بنائے جائیں گے
اس گلشن کے رنگین پھول
بے نور اور سڑ جائیں گے


منگل، 30 ستمبر، 2014

ناکام

تم پہلے تو نہیں
نہ ہی آخری ہو گے
تھے اور، اور بھی ہونگے
جو ان راستوں پر رینگے
جہاں آج تم ہار بیٹھے ہو
وقتی طور سہی
سطحی طور سہی
مگر ہار بیٹھے ہو

چلو اٹھو
اٹھو، چلو
کہ یہ وہ مقام نہیں
جہاں بےبسی پہ رویا جائے
کم ہمتی، سست روی پہ رویا جائے
وہ جگہ تو ابھی, بہت دور ھے
وہاں پہنچتے پہنچتے ذرا وقت لگتا ھے
وہ جگہ جہاں لوگ ہارتے ہیں
جہاں غم سے، زلف کی خم سے
ہارنے والے پہچانے جاتے ہیں
بے بس، واقعی بے بس ہوتے ہیں
بےکس اصل میں بےکس ہوتے ہیں
ابھی وقت ہے مرے دوست ابھی وقت ہے 
تم اس ہار تک نہیں پہنچے
ناکام کے مقام پر نہیں پہنچے


اتوار، 14 ستمبر، 2014

الفاظ

قید ہر شئی ہے جذبات میں یہاں
الفاظ دے کر مجھے آزاد کیا تو نے

اتوار، 7 ستمبر، 2014

سفرِِ مسلسل کے مسافر


اے سفرِِ مسلسل
ٹھر ایک پل
ٹھر!
کہ ایک پل میں رہ گئے ہیں
کچھ بےسمت مسافر
بحربیکراں سے بیزار ہو کر
گمشدگی کی آس لیے
تکھے تھکے سے بدحواس مسافر
اپنے سایے کا سہارا لئے
فنائیت میں بقا کا دلاسہ لئے

انکے لئے ٹھر

ہفتہ، 6 ستمبر، 2014

مجذوب


مرے یار کے سینے میں
رازداروں کا علوم ھے

کچھ پل اور بِتانے دو
کہ دل بہت مغموم ھے

کوئی بات تو ہوگی یعنی
یاں اتنا جو ہجوم ھے

آئے ہیں خستہ حال سبھی
معمار کی بہت دھوم ھے

اسے راکھ نہ بولو ناظر
آگ تھی، جو معدوم ھے

بات جو مست کرگئی  محفل
اُسی ہاتھ سے مرقوم ھےTop of Form




اتوار، 31 اگست، 2014

سہارے


الجھن ایک،  اوجھل ھے
سینہ سارا،  بوجھل ھے

اک اَنا ھے جس کی رضا نہیں
پر من کو تو منع نہیں
لکھ بھیجو کی سامان نہیں
جس کے سہارے جی سکیں

گھر کی یاد


ہوش کے آخری دہانے
آرزو کے نت نئے بہانے
ہر شب، گھر کا منظر
اور صبحدم پھر ویرانے

یہ معمول سا بن گیا ھے
یہ سراب سے خواب
یہ خواب سی خواہشیں
دھوپ سے آنکھ کھولنے کو ھے
من گھڑت منظر مٹنے کو ھے

اتوار، 13 جولائی، 2014

تیرا بندہ

سنسان سا کوئی مندر ہوں
میں عبرت کا اک منظر ہوں
راکھ سہی
بےتاب سہی
میں غلطی پر ہوں لاکھ سہی
پر ہوں تو تیرا بندہ ہوں

ٹوٹا بھکرا تارا ہوں
جوگی بن آوارہ ہوں
الجھا سلجھا دھاگا ہوں
گرتا پڑھتا مارا ہوں
بے مطلب، بے چارہ
بن منزل میں سیّارہ ہوں

بن قبلہ اپنا کعبہ ہوں
دھوکہ ہوں دھتکارا ہوں
بےساکھی بن بےسہارا
ساقی ہوں، ناکارہ ہوں

گمراہ چلتا تنہا ہوں
میں الٹی بہتی گنگا ہوں
راکھ سہی
بےتاب سہی
میں غلطی پر ہوں لاکھ سہی
پر ہوں تو تیرا بندہ ہوں


جمعرات، 3 جولائی، 2014

لوگ

جنگی بنیادوں پر امن لانے والے
محبت کے زور پہ بات منوانے والے
دردمندی سے درد کو پھیلانے والے
جان لیکے، اپنی جان دینے والے

مختلف ہاتھوں میں یک کاسہ لیے ہو
تم جدا سہی، تنہا نہیں ہو۔

جینے کے خوف سے مر جانے والے
پرچھایوں سے اپنی ڈر جانے والے
حق کی تلاش میں کھو جانے والے


تم تنہا سہی، جدا نہیں ہو۔

جمعہ، 20 جون، 2014

ننگے پیر دوڑتی

ٹھنڈے فرش، ننگے پیر دوڑتی
دیوار پر رنگین لکیر
معصوم چہرے، معصوم ہنسی
بند ڈبّے، کھلونے،تھے سبھی

پھر یک دم یہ جانا
یہاں کائنات ھے اور بسی
نظر افق تک ھے رکی
بند ڈبوں میں، بند زندگی

پیالوں سے اٹھتے بخارات
غیر یقینی پر مذاکرات
دائرے میں دھواں، دایرہ نما
راکھ روشن چہرے میں خوش نما

پھر یک دم یہ جانا
یہاں کائنات ھے اور بسی
نظر افق تک ھے رکی
بند ڈبوں میں، بند زندگی

چاند رات اور بےبسی
دور سے آزاد خوشی
کاغذ پہ رنگین لکیر
ننگے پیر  دوڑتی


جمعہ، 30 مئی، 2014

ابھروں ؟

ذرہ ذرہ لے کے مٹی
دھارا دھارا کر کے چکی
 ابھروں ؟

ذہن، وہم، فکر بن کے
لمس، بو، نظر بن کے
پھل، پھول، ثمر بن کے
لفظ، بول، اثر بن کے
 ابھروں ؟

دکھ، درد، ملال بن کے
امر، نہی، سوال بن کے
کم، عدم، زوال بن کے
علم، عروج، کمال بن کے
ابھروں؟

فن،گُن، دھُن بن کے
شمع، نور، کرن بن کے
گھُپ،گَھٹا، گُھٹن بن کے
باد،بہار، پَوَن بن کے
ابھروں؟