جمعہ، 30 مئی، 2014

ابھروں ؟

ذرہ ذرہ لے کے مٹی
دھارا دھارا کر کے چکی
 ابھروں ؟

ذہن، وہم، فکر بن کے
لمس، بو، نظر بن کے
پھل، پھول، ثمر بن کے
لفظ، بول، اثر بن کے
 ابھروں ؟

دکھ، درد، ملال بن کے
امر، نہی، سوال بن کے
کم، عدم، زوال بن کے
علم، عروج، کمال بن کے
ابھروں؟

فن،گُن، دھُن بن کے
شمع، نور، کرن بن کے
گھُپ،گَھٹا، گُھٹن بن کے
باد،بہار، پَوَن بن کے
ابھروں؟


منگل، 27 مئی، 2014

اے زندگی

فرصت سے سوچوں گا، اے زندگی

ذرا مر تو لینے دو

تڑپ تڑپ کے رونا


تڑپ تڑپ کے رونا مبارک ہو تمھیں
ہم بے چین ہیں، رونے کو تڑپ رہے ہیں

لوٹ آنا

یادوں کا دامن طویل ھے
 دکھ کے کانٹے گہرے
لوٹ آنا سوچ کے سفر سے
آنسو بہنے سے پہلے

آدم ہر حال میں بےتاب ھے

تشنگی ہے دوری تیری
اضطراب تیری یاد ھے
واقف ہیں گرچہ سبھی
ملاقات اک حسین خواب ھے
مرتّب کیا گیا ہے کچھ ایسے
آدم ہر حال میں بےتاب ھے

لکھا گیا ہے کچھ اس زاویے سے
قاری، کردار سبھی پریشان ہیں
سمجھ بیھٹے ہیں جو چند دیوانے
خاموش ہیں، حیران ہیں

تراشا گیا ہے اس انداز سے
کشمکش میں ہیں مصوّر، مدبّر سبھی
اور درویش بن رہے انجان ہیں

گایا گیا ہے اس دھُن  سے
دھَن دولت لٹا رہے ہیں سبھی
اور صوفی سن رہے ہیں جیسے
اس سُر و تال سے کوئی سر و کار نہیں
دل مچل رہا ہے سبھی کا
یہ مخمصہ کسی اک پر مخصوص نہیں
کہ سوال تو مل گیے سبھی کو
جواب نہیں، نہ سمجھنے کی تاب ھے


آدم ہر حال میں بےتاب ھے

پیر، 26 مئی، 2014

مٹا دینا

مٹا دینا، چہرے سے اداسی کے نشان
ڈھاپ لینا، ہتھیلی سے ناتمام ارمان
دفنا دینا، تابوت میں خواہشیں ساری
دل کے کواڑ میں اک اور ادھوری داستان

جھاڑ کر،
پھونک کر،
جو کھلے گی کبھی،
تو  اس  میں
من پسند  من گھڑت رنگ بھرے جایئں گے
جو دنگ کردے، وہ پہلو نکالے جایئں گے
جو مسخ کردے تصویر، وہ تفسیر لکھی جائیگی

پھر تم اک کام کرنا
مٹا دینا

جمعرات، 22 مئی، 2014

خاموشی


خاموشی سے خوب تھی  شناسائی میری

پھر  اک  روز  مار  گئی،  تنہائی  میری

جمعہ، 16 مئی، 2014

روشن ستارے

آسمان سے گرتے روشن ستارے
نہ جانے کتنے سپنے ٹوٹے ہارے

کھڑکی سے دیکھے معیوب تماشے
ہر سمت سے  ڈھلتے مایوس اشارے
زمین بوس ہوئے خواب سارے
نہ جانے کتنے سپنے ٹوٹے ہارے ...

پر اک آوارہ تارا ھے
اب تک چمکا جارہا ھے


اپنی کائینات میں مگن

اپنی منزل پر گامزن

جمعرات، 15 مئی، 2014

بدل

"بدل"

ب-د-ل
یعنی دل کے پیچھے ایک 'ب' ہاتھ دھو کے پڑا ھے۔
یہ دل بدبخت کہیں کا، بےچین ھے۔ کبھی یہ بچکانا سی حرکتیں کرتا ھے، کبھی با ادب ہو جاتا ھے، کبھی یہ بہادر بن جاتا ھے اور کبھی انتہائی بزدل۔ بس یہ دل اور اسکی بدلتی ہوئی صورتوں ہیں جو زندگی میں تبدیلی لاتی ہیں۔

بدل کو اگر اسکے ظاہر پر لیا جائے تو حکم لگتا ھے، بدل!!  پھر دل کا کیا قصور کے یہ ابد سے احکام لینے کا عادی ھے۔ 'کن'، ہوجا، تو ہوگیا،، بدل، تو بدل گیا۔ یہ بےچارہ دل تو بدل میں بھی 'ب' سے دبا ھے۔

اگر 'ب' کو عربی کے معنے 'ساتھ' کے لیا جائے تو ترجمہ، 'ساتھ، دل' ہوگا اور مطلب کچھ یہ بنےگا کہ ؛'دل کو ساتھ لے کر چل'۔ اس طرح ذمہ داری کچھ سوچ پر بھی عائد ہوگی اور دل بےوجہ کی بدنامی سے بچے گا۔ کیوں کہ زندگی میں انسان کی سوچ تبدیل ہوتی رہتی ھے، اسلیے دل کو بھی ساتھ لے کر چل، بدل!

یہ ضروری تو نہیں کہ 'بدل' حکم ہو، کیا معلوم  یہ حکم نہیں درخواست ہو۔ ویسے بھی بدل باقی 'فعل' سے مختلف ہے، اسکے ساتھ کچھ خاص رویہ برتا جاتا ھے۔ 'تلاش'، 'انکار'، 'سوال' جیسے 'افعال' کو 'کرنا' پڑتا ھے جبکہ بدل 'نا' سے گزارا کر لیتا ھے۔ لیکن یہ 'نہ' انکار کا نہیں، پیار کا 'نا' ھے، جیسے کوئی محبت سے کہ رہا ہو کہ بدل-نا !

بدل کے لغوی معنے عوض / قیمت / بدلا یا برابر / تہِ دل سے /خلوص کے ساتھ، ہیں۔ اشتقاقیات (Etymology) کی روح سے بدل کو دیکھا جائے تو 'بدل' کو اور اچھے طریقے سے سمجھا جاسکتا ھے۔
ب  -Medium / Bring  
د      - Direction / Tend towards    
ل - Service / For / Provide / See    
'A medium that gives direction to see'
 'وہ عمل جو سمت دیتا ھے'

یعنی 'بدل' زندگی کا لازمی جز ہے جو ہمیں سمت دیتا ھے۔  یہ عجیب بات ھے کہ 'بدل' سے نیکی بھی نکلتی ھے اور 'بدل' بدل کر ابدال بن جاتا ھے۔


سچ یہ ھے کہ میں 'بدل' کے معنے نہیں جانتا اور شائد کوئی بھی نہیں جانتا۔ اس بات کی کیا ضمانت ھے کہ بدل کے معنے بدلے یا بدلتے نہیں ہیں؟

دستِ راست تھا کوئی

دستِ راست  تھا  کوئی
ہم  سے
براہِ راست  تھا   کوئی

اب  ویران  ھے  رستہ
جہاں  بستہ  تھا   کوئی

منگل، 6 مئی، 2014

اظہار

قید ہر شئی ہے جذبات میں یہاں
                                                          الفاظ دے کر مجھے آزاد کیا تو نے