منگل، 15 اپریل، 2014

ماتھے سے شکن مٹ چکے

قنات سوچ کی مٹ چکی
آیئے
جوہرِ آشکاری
دیکھائیے حضرت


ماتھے سے شکن مٹ چکے
یہ بےچینی
یہ اضطرابی
کچھ اور ہے حضرت

راکھ ہوئے
بسمل ہوئے
پھرے در بہ در
یہ آوارگی نہیں

کچھ اور ہے حضرت

پیر، 14 اپریل، 2014

ستم کی ٹھنڈ

شاید تری جدائی کا کچھ اس میں اثر ہو
اب کے برس ستم کی ادھر ٹھنڈ پڑی ھے
کب تلک چھپائے پھریں ہم اس غم کو
بہت درد سے اس دل نے آہ بھری ھے

کسی بادل کے ٹکڑے کو برسنے کا کہیں
یا کوئ بتلائے گا اسے جو دل پہ لگی ھے
سمجھا دو اس بار میرے آنگن میں نہ آئے

بےچین ھے بہار، دہلیز پہ کھڑی ھے

اتوار، 13 اپریل، 2014

وہ بھولنا چاہتا ھے

شبنم کو شبِ غم منانے دو
دل کو سوزِِنہاں سے جل جانے دو
خود کو بہلایا تھا یہ کہ کر
بعد میں منالے گا ابھی جانے دو

طویل ہوئی فرقت وہ پلٹ کے نہ آیا

وہ بھولنا چاہتا ھے، چلو بھول جانے دو

عشق کا ایسا قدردان ھے وہ

عشق کا ایسا قدردان ھے وہ
کہ اُسے عاشقوں سے پیار ھے

غم شناس بھی، جہاں دیدہ بھی

کہ اُسے نم آنکھوں سے پیار ھے

ہفتہ، 12 اپریل، 2014

شاید

شاید مجھے تڑپنے سے شغف ھے
شاید مجھے جلنے میں مزا آتا ھے

اک کرب میں رہوں اور مرگ نہ ملے
شاید ایسے جینے میں مزا آتا ھے

تو مرے پاس رہے، بچھڑنے کے بعد

ہاں ایسے ملنے میں مزا آتا ھے

کبھی خاموشی کو سنا ہے تم نے ؟

کبھی خاموشی کو سنا ہے تم نے ؟
اطمینان ہے اسکے حضور میں
اسکی موجودگی کا
اپنا ہی اثر ہے
اپنائیت ہے
بےقراروں کو خاموشی
قرار بخشتی ہے

جلتے بجھتے مدھم ستارے
چمک اٹھتے ہیں اشتیاق میں
نہ جانے مجھسے کیا بولےگی ۔۔۔
پر خاموشی،،
خاموش رہتی ہے

سر سر کرتی ہوائیں
سانسیں روک لیتی ہیں
اس امید پہ، کچھ کہے گی ۔۔۔
پر خاموشی،،
خاموش رہتی ہے

مچلتے سمندر کو
ٹھراؤ بخشتی ہے
جیسے شرارت کرتی بچی
ماں کو تکتی ہے ۔۔۔
پر خاموشی،،
خاموش رہتی ہے

لیکن پتھر سے بنے ان پہاڑوں کو
اور پتھر سے انسانوں کو
وحشت زدہ کرتی ہے
خاموشی،،
کان میں کچھ کہتی ہے
پریشان کرتی ہے
طعنے کستی ہے
بھولی ہوئی تلخ یادیئں
سرگوشی کرتی ہے
خاموشی
اثر کرتی ہے

کبھی خاموشی کو سنو تم

دیکھو، کیا اثر کرتی ہے

شیخ کی گفتگو

خوفِ خدا کی نہیں،، عشق کی باتیں سنا واعظ

محبوب کے خفا ہونے کا ڈر خود ہی لگ جاتا ھے

جمعہ، 11 اپریل، 2014

میرا عشق اب کچھ اور ھے

نازک بدن کے واضح اُبھار
سادہ رُخوں پہ ہلکے نکھار
منہ پہ آنچل کی چادر لیے
گود کو اُنکی سرھانا  کیے
ظلمتِ زلف کے سائے تلے
بےخبر کب تک یوں لیٹے رہیں ؟

بازارِ حسن کے بےسبب طواف
ہوش پہ نشے کے چڑھائے غلاف
تخیُّل میں مورت مُجسم کیئے
تصوّر میں اُنکو سامع کیئے
ہر پل دل کو لُبھائے ہوۓ
بےخیال کب تک یوں جیتے رہیں ؟

جس عشق کی تجھے آس ھے
وہ میری نگاہ کے پاس ھے
اُن راستوں کی مرتی مشعلیں
کبھی میں نے بھی جلائی تھیں
پر دل وہ دیار چھوڑ آیا

میری راہ اب کوئی اور ھے
میرا عشق اب کچھ اور ھے

جمعرات، 10 اپریل، 2014

آو محبت کا میری اختتام لکھ دو

آو محبت کا میری
اختتام لکھ دو

مرض عشق ھے دوا
جام لکھ دو

بے دلی سے سہی
پیام لکھ دو

صلح کرتے ہیں اب
انتقام لکھ دو

منتظر ہوں، میرا
انجام لکھ دو

آو محبت کا میری
اختتام لکھ دو

ایک بار گر تم
انجان لکھ دو

نہ آیئں گے پلٹ کر
فرمان لکھ دو

میرے نام کے آگے
گمنام لکھ دو

جُمبش دو قلم کو
مہربان لکھ دو

آو محبت کا میری
اختتام لکھ دو

کہاں پہ مکین ہو
مقام لکھ دو

مرجھا رہا ھے دل
گلفام لکھ دو

بھٹک گیا مسافر
میزبان لکھ دو

چاہتے ھو کیا اپنے
دام لکھ دو

آو محبت کا میری
اختتام لکھ دو

سوچتے کیا ہو
الہام لکھ دو

جھوٹا ہی سہی
الزام لکھ دو

من گھڑت مجھ پہ
داستان لکھ دو

ہرجانہ ھے کتنا
نقصان لکھ دو

آو محبت کا میری
اختتام لکھ دو

لیکن اے جانِ جاں

یوں خاموش نہ رہو

کس کے دل میں ملیں گے

ڈھونڈ رہے ہیں آپ
آواز دیجیئے

کہاں چھپے ہیں خدارا
بتا دیجیئے

اندھیرے ڈرائے ہیں جلوہ
دیکھا دیجیئے

دل دھڑک رہا ھے تیز، تیز
ہاتھ دیجیئے

کچھ کچھ نشے میں ھوں
جام دیجیئے

بچھا دیا ھے سامنے جی
جواب دیجیئے

ڈھونڈ رہے ہیں آپ
آواز دیجیئے

خانہ بدوش میں، آپ من کے مکیں

تو بتایئں کس کے دل میں ملیں گے

بدھ، 9 اپریل، 2014

ذاتِ ناتمام

صلاۃ میں کوئی بات نہ ہوئی
کعبہ گئیے ملاقات نہ ہوئی

گھاٹ گھاٹ پھرے گمراہ
راہ لیکن راست نہ ہوئی

بدل رہے اوصاف اب تک
طبیعت دیکھ ثبات نہ ہوئی

گِھس لیں ساری پریت کی راہیں
مکمل پھر بھی ذات نہ ہوئی

منگل، 8 اپریل، 2014

ہار

صبحِ نو کی نوید نہ سناؤ
رات کا جاگا، اور نہ جگاؤ
عرصہ ہوا، کہ میں ہار گیا
اب جا چکا، واپس نہ بلاؤ

پیر، 7 اپریل، 2014

کچھ لمحے ٹھر

کچھ لمحے ٹھر
اے وقت کی لہر
ذرا سانس لینے دے
میں تھک گیا ہوں

دم گُھٹنے لگے جب دنیا کے خیابانوں میں

دم گُھٹنے لگے جب دنیا کے خیابانوں میں
سانس لینے چلے جانا دور ویرانوں میں

غرق ہو جائے جب زندگی پیمانوں میں
ڈوب جانا کہیں پھر ڈوبتے نظاروں میں

اتوار، 6 اپریل، 2014

تم ہی بتاؤ ہم کیا کریں

عشق کیا ھے، فرصت سے دیکھ لینا
تمھارے پاس ہی، دل چھوڑ آیا ھوں

کھینچ لائی ھے تری محبت یہاں
بن سنور کسی کو چھوڑ آیا ھوں

ہمارے خلاف فیصلہ
بےشک سنا دینا
اتنا تو حق ھے ہمھیں
ہمھیں بھی بتا دینا
پھانسی لگادی آپ نے،
زلفوں کو پھیلا کر
چادر میں جب چھپاؤ
ہمھیں بھی دفنا دینا

بات،،اتنی سی تھی،
کیا خبر آپ بگڑ جایئں گے
ہم نے فقط کہا تھا
حد سے گزر جایئں گے
گر نہ کریں اب تو بے عمل کہو گے

کر گیئے تو، نظروں سے گِر جایئں گے

ہفتہ، 5 اپریل، 2014

دعا کے لیئے ہاتھ

دعا کے لیئے ہاتھ
کبھی نہ اٹھاؤنگا
ذکرِ حاجات
لب پہ نہ لاؤنگا
ترے سامنے آواز اٹھاوں
اتنا میرا دل نہیں
ہاں،
 دل ہی دل میں سب گفتگو کر جاؤنگا

مسجد میں پیونگا
نماز میخانے میں
زاہد کو بےخودی
آسی کو ترغیب ملے گی
کافر کافر کہتے ہیں ترے بندے
تو جنت دے دے یا رب
دیکھ،،کتنوں کو امید ملے گی

تو جب جب بلائے گا
میں اور دور چلا جاؤنگا
دیکھ تو ذرا، رش ترے چاہنے والوں کا
اس لیئے ڈونڈتا ہوں رستہ
تری نظر میں آنے کا


جنت کا ہمیں کوئی شوق نہیں
عیّاش نہیں ہم، ایسا ذوق نہیں
ہاں
آپ سے ملنا ہے
بتایئے کہاں آنا ہے
سر کے بل آئیں
یا ماتھا تکا کے آنا ہے
سنا ہے
آپ بہشت میں جلوہ دیکھاتے ہیں
تو بتایئے کب آنا ہے

بلند داوے کرتے ہیں
باتیں گھڑتے ہیں
پر اے خدا تری قسم
پیار کرتے ہیں

تبھی کرتے ہیں

جمعہ، 4 اپریل، 2014

لاڈلا ہوں

کیفیتِ جنوں ہے یا حالتِ بیداری ہے
سب نے چن لی وہ، جو حالت اُسے پیاری ھے

سجا کے رکھتے ہیں داغوں کو سامنے
جو دیکھ جائے بھلا کیسی پرہیزگاری ھے
میرے حلیے سے دھوکہ نہ کھا زاہد
(شاید) میں نے اک عمر سجدے میں گزاری ھے
میں بھی لاڈلا ہوں، خدا کا ۔۔۔

اے اللہ
شرمساری میری آنے نہیں دیتی
نسبت پرانی جانے نہیں دیتی
ترے در کے باہر، جاں ترے حوالے
کسی ولی کو کہہ کر مجھے بلالے

ہمیں چھوڑ کر جنوں میں
اکیلے چلے جاتے ہیں
ہمیں بلانے والے
کدھر چلے جاتے ہیں؟
تجھے خود اٹھ کر آنا پڑھے گا یا رب
اس بندے کے نخرے زیادہ ہیں

کہتا ہے

لاڈلا ہوں، خدا کا