بدھ، 15 اکتوبر، 2014

چنگاریاں

آ،
کہ تڑپ رہی ہیں مجھ میں
پراصرار چنگاریاں
ہولے۔۔۔ ہولے بول،
کی سن رہی ہیں میری بےتابیاں
سنبھل ۔۔۔ اے دوست سنبھل !!
کہ مٹ چکی ہیں پہلے بھی شناسائیاں

اب صحرا اور گلشن کرینگے سرگوشیاں
کہ پَر طول رہی ہیں میری شوخیاں
پرواز کرے گی آواز مری
دستک دیگی سوز و گداز مری
اور جاگ اٹھیںگے  سب سوزوساز
قفس میں بلبل کی انگڑائیاں
ظلم  و جبر سے بےنیاز

اور تم کہتے ہو، 'تھام لوں زبان
کہ ہو رہی ہیں تجھ سے گستاخیاں
یہ چنگاری ہے، اڑ جائیگی'
میں کہتا ہوں، ساری دنیا جل جائیگی
اور بول اٹھیگیں خاموشیاں

جمعرات، 2 اکتوبر، 2014

آتش فشاں

اک آتش فشاں پھٹنے کو ھے
یہ شہر، یہاں سے دور بھی
نفرت کا دھواں پھیلے گا
اکڑی گردن، ترچھی نگاہیں
سہمے دل، بلند آوازوں سے
تعصب کے، وفاداری کے
بیہودہ سوال پوچھیں گے
اور امتیاز کے ترازو
عجلت میں بنائے جائیں گے
اس گلشن کے رنگین پھول
بے نور اور سڑ جائیں گے