منگل، 28 اپریل، 2015

کلاکار

بچن پوچھ رہا ھے زمانے کدھے گیے
میرے ساتھ کے سب دیوانے کدھر گیے

پوچھو تو سب منشا بننے میں لگے ہیں میاں
ہم انشا کی طرح اپنے کوچے میں ہیں رواں
بوجھ رہے ہیں، سوال جو کچھ سوجھ رہے ہیں

کہاں ہیں کہاں ہیں کلاکار کہاں ہیں
ادب سے کرنے والے وفا-وفادار کہاں ہیں

89 کی پیدائش
سوچ 92 کی طرح
دنیا کی باتوں سے بے نیاز
کچھ خاص، تھا ہم میں
گلی گلی میں رستم چھپے تھے
معنی خیز جیسے 10 روپے تھے
7 کی بوتل 3 کا سموسہ
ساتھ وہ بارش، اور بوسہ
کالج میں ناجانے کتنوں کو ملا دھوکہ
یونی میں آئے تو ملک کا کھوکا
پر بھروسہ تھا ہم پہ
کہ اک اک کر کے ابھرنیگے
پرجب  لگا نوکری بزار
بک گیے بیچارے سب فنکار

بچن پوچھ رہا ھے زمانے کدھے گیے
میرے ساتھ کے سب دیوانے کدھر گیے

ڈایری بھر نے والے
دنیا سے لڑنے والے
چیلف پر کتابیں سجانے والے
اندھیرے پی کر دیا جلانے والے
سورج نگل کر آگاہ کرنے والے
نہاں جذبات رونما کرنے والے

کہاں ہیں کہاں ہیں کلاکار کہاں ہیں
ادب سے کرنے والے وفا-وفادار کہاں ہیں


اتوار، 19 اپریل، 2015

کنارہ

سایہ جو لہک رہا ھے، اپنا ہی ھے
دیا جو دہک رہا ھے، اپنا ہی ھے

آ آ کہ بہلا رہی ھے لوری تری
یہ آہٹ، حقیقت، سپنا بھی ھے

در بدر بھٹک رہی ہیں نگاہیں
پیر جم گئے در پر، چلنا بھی ھے

کالی ہواؤں سے پوچھتے ہیں  پتا
ہاں وہ انجان بےنام، اپنا بھی ھے

لے آئی کیوں وہ کنارے پر مجھے
جلوے اس شوخ کے الگ سے بنُے ہوئے
اور برسی چاندنی، اندیرے گھنے ہوئے

پرسکوں لہروں کی ناآگاہی
دیکھ کر سوچا وہ الجھا راہی
ترے وجود پر غلاف ھے
تری حقیقت بر خلاف ھے
بس ذرا بڑا، تیرا گڑھا ھے
راہی کنارے پر کھڑا سوچ رہا ھے
بےبسی اور بےبس، یہاں ملتے ہیں