منگل، 30 ستمبر، 2014

ناکام

تم پہلے تو نہیں
نہ ہی آخری ہو گے
تھے اور، اور بھی ہونگے
جو ان راستوں پر رینگے
جہاں آج تم ہار بیٹھے ہو
وقتی طور سہی
سطحی طور سہی
مگر ہار بیٹھے ہو

چلو اٹھو
اٹھو، چلو
کہ یہ وہ مقام نہیں
جہاں بےبسی پہ رویا جائے
کم ہمتی، سست روی پہ رویا جائے
وہ جگہ تو ابھی, بہت دور ھے
وہاں پہنچتے پہنچتے ذرا وقت لگتا ھے
وہ جگہ جہاں لوگ ہارتے ہیں
جہاں غم سے، زلف کی خم سے
ہارنے والے پہچانے جاتے ہیں
بے بس، واقعی بے بس ہوتے ہیں
بےکس اصل میں بےکس ہوتے ہیں
ابھی وقت ہے مرے دوست ابھی وقت ہے 
تم اس ہار تک نہیں پہنچے
ناکام کے مقام پر نہیں پہنچے


اتوار، 14 ستمبر، 2014

الفاظ

قید ہر شئی ہے جذبات میں یہاں
الفاظ دے کر مجھے آزاد کیا تو نے

اتوار، 7 ستمبر، 2014

سفرِِ مسلسل کے مسافر


اے سفرِِ مسلسل
ٹھر ایک پل
ٹھر!
کہ ایک پل میں رہ گئے ہیں
کچھ بےسمت مسافر
بحربیکراں سے بیزار ہو کر
گمشدگی کی آس لیے
تکھے تھکے سے بدحواس مسافر
اپنے سایے کا سہارا لئے
فنائیت میں بقا کا دلاسہ لئے

انکے لئے ٹھر

ہفتہ، 6 ستمبر، 2014

مجذوب


مرے یار کے سینے میں
رازداروں کا علوم ھے

کچھ پل اور بِتانے دو
کہ دل بہت مغموم ھے

کوئی بات تو ہوگی یعنی
یاں اتنا جو ہجوم ھے

آئے ہیں خستہ حال سبھی
معمار کی بہت دھوم ھے

اسے راکھ نہ بولو ناظر
آگ تھی، جو معدوم ھے

بات جو مست کرگئی  محفل
اُسی ہاتھ سے مرقوم ھےTop of Form