ہفتہ، 20 دسمبر، 2014

دھراؤ


گھورتے ہوئے برتنوں کا جاذب عکس
پس منظر میں سائے کا یک ڈھنگ رقص

کافوری دیوار کا پھیکا سا رنگ
نلکے کے مو پہ ہلکا سا زنگ

بیکار آوازوں کا بیکار ملاپ
ریاکاروں کی بیزار، اداکاری کا ملاپ

پاؤں میں پل پل پھڑکتی رگیں
پیالوں میں چمکتی تری کی شمعیں

ہر شے کہ رہی ہے بھاگ جاو کہیں
بےچارگی سے فراری کا رستہ نہیں

"اب ہوش میں رہوں گی" یہ سوچتی ہے
مگر
اصوات کی تکراری
منظر کی بیزاری

اسے پھر سے لے ڈوبتی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں