اتوار، 28 دسمبر، 2014

طبیب

دور،،، فسوں ساز، اداس سی، بجتی شہنائی ھے
کہاں؟،، رخصار دل فگار کی، غائب رعنائی ھے

ڈوب رہا ہے دل،
رات اب آئی ھے
تری خاطر غم طراز
دیکھ شاہراہ سجائی ھے

کون سی سواری پر ھے
کہاں تک تو آئی ھے
جینا دشوار ہوا،
نظر دھندلائی ھے

مدھ بھری آنکھ، مشہور مسیحائی ھے
سن کر ترا نام،دیکھ خلقت اٹھ آئی ھے
خراب حال میں، خراماں چال تو
مری قسمت میں کیا، لکھی رسوائی ھے

اتنی مشکل بھی نہیں یہ راہ گزر
جتنی ہرجائی، تو  نے بتائی ھے

'چھیتی دوڑ     وے طبیبا  ،نی تے میں مر گی یاں'

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں