منگل، 27 مئی، 2014

آدم ہر حال میں بےتاب ھے

تشنگی ہے دوری تیری
اضطراب تیری یاد ھے
واقف ہیں گرچہ سبھی
ملاقات اک حسین خواب ھے
مرتّب کیا گیا ہے کچھ ایسے
آدم ہر حال میں بےتاب ھے

لکھا گیا ہے کچھ اس زاویے سے
قاری، کردار سبھی پریشان ہیں
سمجھ بیھٹے ہیں جو چند دیوانے
خاموش ہیں، حیران ہیں

تراشا گیا ہے اس انداز سے
کشمکش میں ہیں مصوّر، مدبّر سبھی
اور درویش بن رہے انجان ہیں

گایا گیا ہے اس دھُن  سے
دھَن دولت لٹا رہے ہیں سبھی
اور صوفی سن رہے ہیں جیسے
اس سُر و تال سے کوئی سر و کار نہیں
دل مچل رہا ہے سبھی کا
یہ مخمصہ کسی اک پر مخصوص نہیں
کہ سوال تو مل گیے سبھی کو
جواب نہیں، نہ سمجھنے کی تاب ھے


آدم ہر حال میں بےتاب ھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں