ہفتہ، 22 مارچ، 2014

خاک ہوں

دکھیائے آئے، پیتم ہم، پیاسے ترے پاس


میخانہ اپنا کھول دے،بجھا میخوار کی آس

خاک ہوں
کیا خاک اڑے گا خاکی
مجھے پرواز دے
چلا بادِ بہار، اے ساقی

لا وہ جام
وہ بادہ
بعد جس کے
باقی نہ رہے بعد، اے ساقی

پلا نظروں
ہاں پلا
نہ شرما
اے ساقی

ٹوٹ جائیں پیمانے
حدوں کے معنے
گر جائیں قدموں میں
ایسے سجدے کرا
اے ساقی

مست نگاہی کا
پلانے کے سوا
اور مقصد ہی کیا ھے

اک سرور ھے
غمِ عشق میں
اور رکھا ہی کیا ھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں