پیر، 31 مارچ، 2014

ہمیں دیوار سے لگا کر

داستانِ فرداہم سنانے لگے ہیں
فردا فردا کیوں افراد آنے لگے ہیں


پی کر غمِ دردہ ہم لہرانے لگے
بے وجہ آپ کیوں گھبرانے لگے ہیں


غمِ دو جہاں کی لذت
بڑی قلیل یہ زیست ہے
یہ سن کے ہیں پریشان
در در ٹھکرانے لگے ہیں


دل پہ رکھے ہیں ہاتھ
ہاتھ بھی کپکپانے لگے ہیں
سنبھل نہ سکیں گے دل میں غم
اب عالم میں آنے لگے ہیں


راز تو فاش ہوگا
ندامت کا کیا کریں گے
کچھ آن سے سجالیں
جو بات چھپانے لگے ہیں


عشق میں ڈوبنا پڑھے گا
جان تو دیکھ جائے گی
ہمیں دیوار سے لگا کر
وہ کام کروانے لگے ہیں


ہم بے دلی سے انکے ہوئے
وہ اعتراز اٹھانے لگے ہیں
احسان مند نگاہیں دیکھا کر
اب آپ اپنانے لگے ہیں


نہ ہو انکے تو درد ھے
انکے ہونے میں درد ھے
کیوں نہ پھر عشق کے مزے لیں
یہ بات وہ سمجھانے لگے ہیں


ہمیں دیوار سے لگا کر
وہ کام کروانے لگے ہیں


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں