جمعرات، 27 مارچ، 2014

پل بھر کی زیست

یہ کیسا سمندر ہے
یہ کیسی ناؤ ہے
جو کہہ رہی ہے
تغیّر میں ٹھراؤ ہے

جو کہہ رہی ہے
یقین کر میرا
بے یقینی میں ایمان ہے
بے نامی میں پہچان ہے
بے خبری میں گیان ہے

یہ کہہ رہی ہے
منزل، سفر کا نام ہے
زیست، پل بھر کی گام ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں