منگل، 1 اپریل، 2014

خاکی

میں کچھ بھی نہیں، ہاں، کچھ نہیں ہوں
خاکم بدھن، خاک جسم اور کچھ نہیں ہوں

نازِ طاقتِ بازو نہیں
طاقِ پروازِ خرد نہیں
زمین بوس ہوں
امید دوش ہوں
مخدوش ہوں
مدہوش ہوں
اور کچھ نہیں

حقیقت میں حقیر
صفت میں فقیر
امتحان ہوں
نسیان ہوں
بھول ہوں
انسان ہوں
اور کچھ نہیں

نقشہِ کائنات میں
ذرہِ مبہم ہوں
فانوسِ ابر پر
شمع معدوم ہوں

بحرِ بے کراں میں
قطرہِ بسمل ہوں
لوحِ ازل میں پھیلا
نقطہِ منتشر ہوں
اور کچھ نہیں

ساقط ہوں، سکوت ہوں
جامد ہوں،  جمود ہوں
شورِ ہستی کے بھنور میں
گھٹی آواز ہوں
خاموش پکار ہوں
اور کچھ نہیں

دقیق زیست میں
عمیق پریت ہوں
طریق کی ریت ہوں
دبا ہوں
ڈوبا ہوں
اس لئے
زمین بوس ہوں
اس لئے
خاک ہوں
خاک ہوں
خاک ہوں
اور کچھ نہیں


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں