جمعہ، 11 اپریل، 2014

میرا عشق اب کچھ اور ھے

نازک بدن کے واضح اُبھار
سادہ رُخوں پہ ہلکے نکھار
منہ پہ آنچل کی چادر لیے
گود کو اُنکی سرھانا  کیے
ظلمتِ زلف کے سائے تلے
بےخبر کب تک یوں لیٹے رہیں ؟

بازارِ حسن کے بےسبب طواف
ہوش پہ نشے کے چڑھائے غلاف
تخیُّل میں مورت مُجسم کیئے
تصوّر میں اُنکو سامع کیئے
ہر پل دل کو لُبھائے ہوۓ
بےخیال کب تک یوں جیتے رہیں ؟

جس عشق کی تجھے آس ھے
وہ میری نگاہ کے پاس ھے
اُن راستوں کی مرتی مشعلیں
کبھی میں نے بھی جلائی تھیں
پر دل وہ دیار چھوڑ آیا

میری راہ اب کوئی اور ھے
میرا عشق اب کچھ اور ھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں