ہفتہ، 12 اپریل، 2014

کبھی خاموشی کو سنا ہے تم نے ؟

کبھی خاموشی کو سنا ہے تم نے ؟
اطمینان ہے اسکے حضور میں
اسکی موجودگی کا
اپنا ہی اثر ہے
اپنائیت ہے
بےقراروں کو خاموشی
قرار بخشتی ہے

جلتے بجھتے مدھم ستارے
چمک اٹھتے ہیں اشتیاق میں
نہ جانے مجھسے کیا بولےگی ۔۔۔
پر خاموشی،،
خاموش رہتی ہے

سر سر کرتی ہوائیں
سانسیں روک لیتی ہیں
اس امید پہ، کچھ کہے گی ۔۔۔
پر خاموشی،،
خاموش رہتی ہے

مچلتے سمندر کو
ٹھراؤ بخشتی ہے
جیسے شرارت کرتی بچی
ماں کو تکتی ہے ۔۔۔
پر خاموشی،،
خاموش رہتی ہے

لیکن پتھر سے بنے ان پہاڑوں کو
اور پتھر سے انسانوں کو
وحشت زدہ کرتی ہے
خاموشی،،
کان میں کچھ کہتی ہے
پریشان کرتی ہے
طعنے کستی ہے
بھولی ہوئی تلخ یادیئں
سرگوشی کرتی ہے
خاموشی
اثر کرتی ہے

کبھی خاموشی کو سنو تم

دیکھو، کیا اثر کرتی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں